Wednesday, 12 December 2012

سید زادی کا نکاح غیر سید سے ہونے پر دلیل معتبر



سید زادی کا نکاح غیر سید سے ہونے پر دلیل معتبر

دائود بن علی نے امام صادق ع سے کہا کہ آپ ع نے فلاں اموی کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیا تو امام ع نے جواب دیا ہاں ، میں نے ایسا کیا کیونکہ رسول اللہ ع نے بھی عثمان کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیا تھا (کیونکہ وہ بھی اموی تھے) اور میرے لئے رسول اللہ ع کی سیرت میں اسوہ موجود ہے

رجال الكشى ص 241 .

فوائد الحدیث :

مندرجہ بالا روایت کی سند صحیح ہے ۔ آیت اللہ العظمیٰ الخوئی نے معجم میں اور آیت اللہ العظمیٰ آصف محسنی حفظہ اللہ نے مشرعتہ میں صحیح کہا ہے 

مندرجہ بالا معتبر روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صادق ع کے نزدیک سید ذادی یعنی اولاد زھراء ع کا نکاح صرف بنو ہاشم یا سادات بنو فاطمہ ع میں مقید نہیں بلکہ غیر شیعہ حتیٰ کہ امویوں کے درمیان بھی رشتہ دینا جائز ہے یعنی غیر شیعہ اور غیر سادات بھی سادات لڑکیوں کے لئے کفو ہیں ۔مندرجہ بالا روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ایک شیعہ خاتون اور ایک سیدزادی کا نکاح غیر سید اور غیر شیعہ یعنی دیگر مذاہب اسلامیہ میں کرنا جائز ہے ۔


عربی متن

قال : زوجت ابنتك فلانا الاموي قال : إن كنت زوجت فلانا الاموي ، فقد زوج رسول الله صلى الله عليه وآله عثمان ، ولي برسول الله صلى الله عليه وآله اسوة

5 comments:

  1. حدیث مبارکہ کا ترجمہ نادرست ہے، اس جملے، جو بنیادی ہے إن كنت زوجت فلانا الاموي کا اصل ترجمہ یوں ہے کہ اگر میں (فلاں کو) کسی اموی سے بیا دوں گا تو۔۔۔ نہ یہ کہ میں نے بیا دی، یا شادی کر دی۔۔۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. لیکن یہ امام ع نے کس جملے کے جواب میں فرمایا ہے وہ تو پڑھہں
      راوی کہتا ہے کہ صپ نے فلاں اموی کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کرائی ہے

      Delete
  2. اس روایت میں مسئلہ ہے، اولا: اسماعیل بن جابر معین نہیں کہ کون سا ہے، خثعمی یا جعفی۔۔۔ وغیرہ ثانیا: اس روایت کا راوی ، معلی بن خنیس کا قاتل داود بن علی ہے، وہ فاسق و قاتل و ظالم ہے، اس کی روایت مردود ہے۔۔۔ ما زال تعجبی کیف حکم علیھا بالصحۃ۔۔۔

    ReplyDelete