Thursday 25 July 2013

٭کتاب فقہ الرّضا پر آيت اللہ العظمی بروجردی کا موقف٭


٭کتاب فقہ الرّضا پر آيت اللہ العظمی بروجردی کا موقف٭

فقہ الرّضا ان کتب میں سے ہے جن کا اعتبار نہیں ہے، اس کے مصنّف کا کوئی اتہ پتہ نہیں کہ کون ہے اور بظاہر یہ حدیث کی کتاب بھی نہیں لگتی بلکہ کسی کے فقہی احکام کی کتاب ہے۔ آیت اللہ بروجردی بہت تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ یہ کتاب اس وقت منظر عام پر آئی جب قاضی امیر حسین نامی شخص نے ملا تقی مجلسی کو یہ کتاب دی۔ ورنہ اس سے پہلے اس کتاب کا کوئی چرچا علمی محافل میں نہیں تھا اور نہ اس کا وجود ثابت ہے. آپ مزید فرماتے ہیں:

"اس کتاب پر اعتماد میرے نزدیک ثابت نہیں ہے، اور بعض معاصرین نے اس بات کا احتمال دیا ہے کہ یہ شلمغانی(ملعون) کی "کتاب التکلیف" ہی ہے"۔

(البدر الزاھر، ص363)

یاد رہے کہ شلمغانی وہ ملعون شخص ہے جس کی مذمّت میں امام زمانہ(عج) سے توقیع وارد ہوئی۔ فقہ الرّضا وہ کتاب ہے جس میں شہادت ثالثہ کا ذکر ہے، اس تناظر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ فقہ الرّضا سے استدلال کرنا کس قدر حقائق سے چشم پوشی ہے۔

Tuesday 16 July 2013

بوہری اور آغا خانیوں میں کیا فرق ہے؟

سوال: بوہری اور آغا خانیوں میں کیا فرق ہے؟ انکی تاریخ کیا ہے اور کیا بوہری اور آغا خانی مسلمان ہیں؟
جواب: بوہری اور آغا خانی دونوں کی اصل ایک ہے۔ اصل میں جب لوگوں نے امامت کو حضرت اسماعیل کی نسل میں مان لیا تو آگے چل کر ایک وقت آیا جب ان اسماعیل کی اولاد میں سے ایک شخص مہدی کو مصر میں خلافت ملی جہاں اس نے خلافت فاطمی کی بنیاد رکھی۔ یہ خلفاء بہت شان و شوکت سے وہاں حکمرانی کرتے رہے، قاہرہ شہر اور جامعۃ الازھر کی بنیاد انہی اسماعیلی خلفاء نے رکھی۔ اور اس وقت تک یہ باعمل قسم کے شیعہ تھے لیکن اثنا عشری نہ تھے۔
ایک نسل میں ان کے ہاں خلافت کا جھگڑا ہوا، مستعلی اور نزار دو بھائی تھے، مستعلی کو خلافت ملی۔ لیکن لوگوں میں دو گروہ ہوئے، ایک نے مستعلی کو امام مان لیا اور ایک گروہ نے نزار کو مان لیا۔ مستعلی کو ماننے والوں کو مستعلیہ کہا جاتا ہے جو آج کل کے بوھرہ ہیں اور نزار کے ماننے والوں کو نزاریہ کہا جاتا ہے جو آجکل کے آغا خانی ہیں۔ لیکن چونکہ خلافت مستعلی کو ملی تو نزاری فرار ہو کر ایران آئے اور قزوین نامی شہر کا اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ بعد میں ان کا امام "حسن علی ذکرہ السّلام" آیا جس نے ظاہری شریعت ختم کردی اور صرف باطنی شریعت برقرار رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ آغا خانیوں کو فرقۂ باطنیہ بھی کہا جاتا ہے۔
بوہریوں کی خلافت جب مصر میں ختم ہوئی تو انہوں نے ہندوستان و یمن کو اپنا مرکز بنالیا البتہ یہ لوگ باعمل مسلمان ہیں اور پابندی سے نماز وغیرہ پڑھتے ہیں۔
جہاں تک ان کے اسلام کا تعلّق ہے تو بوہریوں کے مسلمان ہونے میں کوئی شبہ نہیں جب تک کہ یہ کسی امام کو گالی نہ دیں۔ کہتے ہیں کہ ایک زمانے تک یہ امام موسی کاظم(ع) کو گالیاں دیتے تھے جو بقول ان کے امامت کو غصب کر بیٹھے (نعوذباللہ)۔ لیکن یہ روش انہوں نے چھوڑ دی تبھی آیت اللہ ابوالحسن اصفہانی کے دور میں ان کو نجف و کربلا زیارت کی اجازت دی گئی۔ وہاں موجود ضریحوں اور حرم کی تعمیر اور چاندی سونے میں بوہریوں نے کافی مدد کی۔
دوسری طرف آغاخانیوں کا اسلام اس لئے مشکوک ہے کیونکہ یہ ضروریات دین میں سے کئی چیزوں کے منکر ہیں۔ نماز کے بارے میں تو ہم نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ نماز سے انکار نہیں کرتے لیکن نماز کا طریقہ الگ ہے۔ جو چیز ان کے اسلام کو مشکوک بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ "حلول" کے عقیدے کو مانتے ہیں۔ ان کے مطابق اللہ کا نور علی(ع) میں حلول کر گیا اور علی(ع) کا نور ان کے ہر امام میں آتا رہا، ان کے حساب سے پرنس کریم آغا خان اس وقت کا علی(ع) ہے، اور جب یہ لوگ "یاعلی مدد" کہتے ہیں تو ان کی مراد ہماری طرح مولا علی(ع) نہیں ہوتے بلکہ پرنس کریم آغا خان ہوتے ہیں۔
لیکن ہمارے لوگ خوش فہمی کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی سلام کے طور پر یاعلی مدد کہنا شروع کیا۔