٭کتاب فقہ الرّضا پر آيت اللہ العظمی بروجردی کا موقف٭
فقہ الرّضا ان کتب میں سے ہے جن کا اعتبار نہیں ہے، اس کے مصنّف کا کوئی اتہ پتہ نہیں کہ کون ہے اور بظاہر یہ حدیث کی کتاب بھی نہیں لگتی بلکہ کسی کے فقہی احکام کی کتاب ہے۔ آیت اللہ بروجردی بہت تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ یہ کتاب اس وقت منظر عام پر آئی جب قاضی امیر حسین نامی شخص نے ملا تقی مجلسی کو یہ کتاب دی۔ ورنہ اس سے پہلے اس کتاب کا کوئی چرچا علمی محافل میں نہیں تھا اور نہ اس کا وجود ثابت ہے. آپ مزید فرماتے ہیں:
"اس کتاب پر اعتماد میرے نزدیک ثابت نہیں ہے، اور بعض معاصرین نے اس بات کا احتمال دیا ہے کہ یہ شلمغانی(ملعون) کی "کتاب التکلیف" ہی ہے"۔
(البدر الزاھر، ص363)
یاد رہے کہ شلمغانی وہ ملعون شخص ہے جس کی مذمّت میں امام زمانہ(عج) سے توقیع وارد ہوئی۔ فقہ الرّضا وہ کتاب ہے جس میں شہادت ثالثہ کا ذکر ہے، اس تناظر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ فقہ الرّضا سے استدلال کرنا کس قدر حقائق سے چشم پوشی ہے۔